Lenin (Khuda Ke Hazoor Mein) - Bal-e-Jibril-129 - Dr. Allama Iqbal
Description
(Bal-e-Jibril-129) Lenin (Khuda Ke Hazoor Mein)
LENIN (Before God)
Ae Anfus-o-Afaq Mein Paida Tere Ayaat
Haq Ye Hai Ke Hai Zinda-o-Paenda Teri Zaat
All space and all that breathes bear witness; truth
It is indeed; You are, and do not remain.
Main Kaise Samajhta Ke Tu Hai Ya Ke Nahin Hai
Har Dam Mutaghyyar The Khird Ke Nazariyat
How could I know that God was or was not,
Where Reasonʹs reckonings shifted hour by hour?
Mehram Nahin Fitrat Ke Sarood-e-Azali Se
Beenaye Kawakib Ho Ke Dana’ay Nabataat
The peerer at planets, the counter‐up of plants,
Heard nothing there of Natureʹs infinite music;
Aj Ankh Ne Dekha To Woh Alam Huwa Sabit
Main Jis Ko Samajhta Tha Kalisa Ke Khurafat
To‐day I witnessing acknowledge realms
That I once thought the mummery of the Church.
Hum Band-e-Shab-o-Roz Mein Jakre Huwe Bande
Tu Khaliq-e-Aasaar-o-Nigarindah’ay Aanat !
We, manacled in the chains of day and night!
You, moulder of all timeʹs atoms, builder of aeons!
Ek Baat Agar Mujh Ko Ijazat Ho To Puchun
Hal Kar Na Sake Jis Ko Hakeemon Ke Maqalat
Let me have leave to ask this question, one
Not answered by the subtleties of the schools,
Jab Tak Mein Jiya Khaima-e-Aflak Ke Neeche
Kante Ki Tarah Dil Mein Khatakti Rahi Ye Baat
That while I lived under the sky‐tentʹs roof
Like a thorn rankled in my heart
Guftar Ke Asloob Pe Qaboo Nahin Rehta
Jab Rooh Ke Andar Mutaltum Hon Khayalat
And made such chaos in my soul of all its thoughts
I could not keep my tumbling words in bounds.
Woh Kon Sa Adam Hai Ke Tu Jis Ka Maabood
Woh Adam-e-Khaki Ke Jo Hai Zair-e-Samawat?
Oh, of what mortal race art You the God?
Those creatures formed of dust beneath these heavens?
Mashriq Ke Khudawand Saifedan-e-Farangi
Maghrib Ke Khudawand Darakhshandah Filzaat
Europeʹs pale cheeks are Asiaʹs pantheon,
And Europeʹs pantheon her glittering metals.
Yourap Mein Bohat Roshani-e-Ilm-o-Hunar Hai
Haq Ye Hai Ke Be-Chashma’ay Haiwan Hai Ye Zulmat
A blaze of art and science lights the West
With darkness that no Fountain of Life dispels;
Raanayi-e-Tameer Mein, Ronaq Mein, Safa Mein
Girjon Se Kahin Barh Ke Hain Bankon Ki Amarat
In high‐reared grace, in glory and in grandeur,
The towering Bank out‐tops the cathedral roof;
Zahir Mein Tajarat Hai, Haqiqat Mein Juwa Hai
Sood Aik Ka Lakhon Ke Liye Marg-e-Mafajat
What they call commerce is a game of dice
For one, profit, for millions swooping death.
Ye Ilm, Ye Hikmat, Ye Tadabur, Ye Hukumat
Peete Hain Lahoo, Dete Hain Taleem-e-Masawat
There science, philosophy, scholarship, government,
Preach manʹs equality and drink menʹs blood;
Bekari-o-Uryani-o-Maikhawari-o-Iflaas
Kya Kaam Hain Farangi Madniyat Ke Fatuhaat
Naked debauch, and want, and unemployment—
Are these mean triumphs of the Frankish arts!
Woh Qoum Ke Faizan-e-Samawi Se Ho Mehroom
Had Uss Ke Kamalaat Ki Hai Barq-o-Bukharaat
Denied celestial grace a nation goes
No further than electricity or steam;
Hai Dil Ke Liye Mout Machinon Ki Hukumat
Ehsas-e-Marawwat Ko Kuchal Dete Hain Aalaat
Death to the heart, machines stand sovereign,
Engines that crush all sense of human kindness.
Asaar To Kuch Kuch Nazar Ate Hain Ke Akhir
Tadbeer Ko Taqdeer Ke Shatar Ne Kiya Maat
‐‐Yet signs are counted here and there that Fate,
The chess‐player, has check‐mated all their cunning.
Maikhane Ki Bunyad Mein Aya Hai Tazalzul
Baithe Hain Issi Fikar Mein Peeran-e-Kharabat
The Tavern shakes, its warped foundations crack,
The Old Men of Europe sit there numb with fear;
Chehron Pe Jo Surkhi Nazar Ati Hai Sar-e-Shaam
Ya Ghazah Hai Ya Saghir-o-Meena Ki Karamat
What twilight flush is left those faces now
Is paint and powder, or lent by flask and cup.
Tu Qadir-o-Adil Hai Magar Tere Jahan Mein
Hain Talakh Bohat Banda’ay Mazdoor Ke Auqat
Omnipotent, righteous, You; but bitter the hours,
Bitter the labourerʹs chained hours in Your world!
Kab Doobe Ga Sarmaya Prasti Ka Safina?
Dunya Hai Teri Muntazir-e-Roz-e-Makafat !
When shall this galley of goldʹs dominion flounder?
Your world Your day of wrath, Lord, stands and waits.
لینن )خدا کے حضور میں(
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
معانی: اَنفس و آفاق: زمین و آسمان ۔ آیات: نشانیاں ۔
مطلب: لینن روس کا وہ عظیم انقلابی رہنما تھا جس نے کارل مارکس کے اشتراکی فلسفے کو عملی جامہ پہنا کر نہ صرف یہ کہ اپنی جماعت بنائی جس کا نام بالشویک تھا بلکہ 1917 ء میں زار روس کا تختہ الٹ کر اشتراکی حکومت قائم کی ۔ ہر چند کہ اقبال کا اشتراکی نظریات سے کوئی تعلق نہ تھا تاہم انھوں نے اس فلسفے اور اس کے رہنماؤں بالخصوص لینن کے فکر و فلسفے کو جس انداز سے دیکھا یہ نظم اس کی ایک واضح شکل ہے ۔ اس نظم میں علامہ نے لینن کو خدائے ذوالجلال سے مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔ فرماتے ہیں ، اے خدا! میں اس حقیقت سے تو آشنا ہوں کہ عالم ارواح اور عالم اجسام دونوں مقامات پر تیری نشانیاں واضح اور نمایاں ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ تیرا وجود ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ۔
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
معانی: متغیر: بدلنے والے ۔
مطلب: لیکن اس عالم آب و گل میں فلسفہ و دانش اور ان کے حوالوں سے نظریات میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے اس نے ایک تذبذب کی کیفیت پیدا کر دی ہے جس کے سامنے تیرے وجود کے بارے میں میں بھی بے یقینی کا شکار رہا اور کوئی واضح شکل سامنے نہ آ سکی ۔
محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
مطلب: یوں بھی ہے کہ عصر موجود میں علم ہیَت و نجوم کے ماہر ہوں یا ماہرین فطرت! وہ خود بھی حقیقت کا صحیح ادراک نہیں رکھتے ۔ اول الذکر تو ستاروں کی گردش پر اکتفا کرتے ہیں اور دوسرے آئے دن نئی نئی باتیں سناتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان کو فطرت کے مظاہر سے کوئی آگاہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خود بھی تیری ذات کے عرفان سے محروم رہے اور دوسروں کو بھی محروم رکھا ۔
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
مطلب: یہ درست ہے کہ جب تک زندہ رہا اس وقت کلیسا کی تعلیم اور پادریوں کی باتوں کو بے معنی سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا لیکن اب عالم آخرت میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تمام باتیں تو حقیقت پر منبی تھیں ۔
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالقِ اعصار و نگارندہَ آنات
معانی: اعصار: زمانے ۔ نگارندہَ آنات: گھڑی پل بنانے والا ۔
مطلب: بے شک ہم تو شب و روز کے چکروں میں محصور او بے بس انسان ہیں اور اے باری تعالیٰ جہاں تک تیری ذات کا تعلق ہے تو زمانوں کا خالق اور ایک ایک لمحے کی واردات کو محفوظ کرنے والا ہے ۔
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
مطلب: تاہم! اگر تو مجھ کو اجازت دے اور میری اس جسارت سے درگزر کرے تو وہ بات ضرور پوچھوں گا جسے دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اور ان کی تصانیف حل نہ کر سکیں ۔
جب تک میں جیا خیمہَ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
مطلب: اور وہ یہ کہ جب تک میں زندہ رہا یہی بات میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی ۔ مطلب: اپنا مدعا بیان کرنے سے قبل یہ ضرور تسلیم کروں گا کہ جب روح میں خیالات متلاطم ہوں تو انسان کو اپنی گفتگو پر قابو نہیں رہتا چنانچہ اس جسارت کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں ۔
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات
مطلب: لیکن اے خالق کائنات! بس اتنا بتا دے کہ وہ کون سا انسان ہے کہ تو جس کا معبود ہے کیا یہ وہی انسان تو نہیں جو خاک کا پتلا ہے اور جو زیر آسمان آباد ہے ۔
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزّات
معانی: خداوند: مالک، حاکم ۔ سفیدانِ فرنگی: مغربی لوگ، گورے ۔ درخشندہ فلزات: چمکنے والی دھات، سونا چاندی وغیرہ ۔
مطلب: لیکن مشرق کے انسانوں کے خدا تو مغرب کے سفید فام لوگ بنے ہوئے ہیں جنھوں نے اس علاقے پر اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے اورر جہاں تک اہل مغرب کا تعلق ہے وہ ہر لمحے چمکدار دھاتوں یعنی اسلحہ اور سکوں کی پرستش کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ پھر اے باری تعالیٰ یہ تو بتا کہ تیرا پرستار کون ہے ۔
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہَ حیواں ہے یہ ظلمات
معانی: چشمہَ حیواں : ہمیشہ کی زندگی کا چشمہ ۔
مطلب: مجھے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یورپ میں علم و ہنر اور سائنس و فلسفہ نے بڑی ترقی کی ہے اور وہاں ہر سو عقل و خرد کی روشنی ہے لیکن پھر بھی وہاں تاریکی کا دور دورا ہے اور اس تاریکی میں کوئی ایسا چشمہ حیوان نہیں جس سے انسان حقیقی زندگی حاصل کر سکے ۔
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
مطلب: یورپ میں تو صورت حال یہ ہے کہ فن تعمیر، رونق اور صفائی کے اعتبار سے بنکوں کی عمارتیں گرجا گھروں کی نسبت زیادہ آسودہ نظر آتی ہیں اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ یورپی باشندوں کو مذہبی عبادت گاہوں سے زیادہ اپنی دولت اور کاروبار سے لگاوَ ہے ۔
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
معانی: مرگِ مفاجات: اچانک موت ۔
مطلب: تاہم امر واقع یہ ہے کہ بظاہر یہ لوگ تجارت اور کاروبار کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر اس کی حیثیت جوئے سے کم نہیں ۔ یورپ میں کاروبار بالعموم سٹے کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں ایک آدھ شخص کو فائدہ ہوتا ہے جب کہ لاکھوں لوگ اقتصادی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں ۔
یہ